نئی دہلی۔ اردو کے ممتاز محقق،ماہرغالبیات اور انجمن ترقی اردو (ہند) کے
سابق جنرل سکریٹری ڈاکٹر خلیق انجم اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ آج صبح
تقریباً 10.30 بجے انھوں نے آخری سانس لی۔ مرحوم 38 سال تک انجمن ترقی
اردو(ہند) کی خدمت کرتے رہے اور اس وقت انجمن ترقی اردو (ہند) کے نائب صدر
کی حیثیت سے وابستہ تھے۔
آپ کی تقریباً 80 کتابیں مختلف موضوعات پر شائع ہوچکی ہیں۔ جن میں قابل ذکر
آثارالصّنادید، انتخاب خطوطِ غالب، متنی تنقید، غالب کا سفر کلکتہ اور
ادبی معرکہ اور حسرت موہانی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر خلیق انجم اردو کے
صف اول کے محقق رہے ہیں۔ ان کی بیشتر کتابیں تحقیق کا اعلی ترین نمونہ ہیں۔
ان
کی کتاب مرزا محمد رفیع سوداؔ کے پیش لفظ میں پروفیسر آل احمد
سرورؔ لکھتے ہیں جو لوگ اردو تحقیق کے معیار کو کم درجے کا سمجھتے
ہیں وہ خلیق انجم صاحب کی کتاب کا مطالعہ کریں تا کہ انھیں معلوم ہوسکے کہ
اردو تحقیق کا معیار کتنا بلند ہوتا جارہا ہے۔ ڈاکٹر خلیق انجم صاحب
نے نثر غالب کے بعد اردو کے دوسرے بڑے شاعر جوش ملیح آبادی کی نثر کی جانب
توجہ کی۔ یادوں کی بارات کے علاوہ خطوط بھی جوش کی نثر کا ایک عمدہ نمونہ
ہیں۔ اس موضوع پر خلیق انجم نے سب سے پہلے جوشؔ بنام ساغرؔ ( نظامی) ایک
سیر حاصل مقدمہ کے ساتھ ترتیب دی۔ آخر میں حواشی کوشامل کردیا جس میں خطوط
سے متعلق ضروری وضاحتیں اور تصیح متن ہیں۔